Ticker

12/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

 




حکومت کے بیربل

—فوٹو فائل

ایک دن اکبر بادشاہ نے اپنے خاص وزیر بیربل کو دربار میں بلایا اور کہا کہ دربار کے باقی وزیر بے حد نالاں ہیں کہ تم خود کو بہت سمجھدار سمجھتے ہو اسی لیے وزیروں نے فیصلہ کیا ہے کہ یا تو تم ان کے تین سوالوں کے جواب دے دو یا پھر استعفی دے دو۔
 یہ سن کر بیربل تھوڑا پریشان ضرور ہوا لیکن اس کو اپنی عقل و دانش اور اپنے مخالفین کی کم عقلی پہ پورا یقین تھا۔ پہلا سوال تھا کہ آسمان پر کتنے تارے ہیں؟ دوسرا سوال تھا کہ اس زمین کا مرکز کیا ہے اور تیسرا سوال یہ کہ اس دنیا میں کتنے مرد اور عورتیں ہیں؟ 
بیربل پہلے سوال کے جواب میں ایک بھیڑ لے آیا اور بولا کہ اس کے جسم پر جتنے بال ہیں اتنے ہی آسمان پر تارے ہیں۔ شک ہو تو گن لو۔ پھر بیربل نے زمین پر چار لکیریں کھینچی اور درمیان میں لوہے کا سریا ڈال دیا اور کہا کہ یہی زمین کا مرکز ہے شک ہو تو ناپ کے دیکھ لیں۔
 آخری سوال کے جواب میں دوسرے وزیروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ دنیا میں آپ کی طرح کی اور بھی مخلوقات ہیں، جو مرد ہیں نہ عورت، تو جب تک ان کو ختم نہ کیا جائے مردوں اور عورتوں کی سہی تعداد کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے۔ بیربل کی حاضر جوابی سن کر تمام درباری ایک بار پھر مایوسی سے اپنے اپنے کاموں کو لوٹ گئے۔
بیربل نام لفظ “ویر وار” سے نکلا ہے جس کا مطلب “حاضر جواب” ہونا ہے۔ بچپن میں اکبر اور بیر بل کی کئی کہانیاں سنی لیکن آج خان صاحب کے دربار کے ایک وزیر کی حاضر جوابی اور طنزومزاح سنتی ہوں تو بیربل کی یاد آ جاتی ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اکثر “فرینکلی سپیکنگ” کرتے کرتے اس قدر فرینک ہو جاتے ہیں کہ ان کے اپنے ساتھی ان کی فرینکنس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ 
وہ پی ٹی آئی کے ان چند وزراء میں سے ہیں جن کا چرچہ میڈیا پر ان کی زبان کی وجہ سے اکثر رہتا ہے۔ چند لوگوں کے خیال میں یہ ان کی خاصیت ہے لیکن کچھ کے خیال میں وہ بد زبان اور ضرورت سے زیادہ straight forward ہیں۔ لوگ جو بھی کہیں لیکن وہ اس وقت خان صاحب کے کنفیوزڈ درباریوں میں واضح سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔ اپنے بادشاہ کا دفاع تو سب ہی درباری کرنا جانتے ہیں لیکن فواد اکثر حکومتی خامیوں اور ناکامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے نظر آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح فواد کھلم کھلا اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے ہیں، کیا ان کو انجام سے ڈر نہیں لگتا؟
اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ فواد اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی وزارت کا فرض نبھانا جانتے ہیں۔ چاہے وہ مشیر اطلاعات کے رول میں حکومت کا دفاع کرنا ہو یا پھر سائنس و ٹیکنالوجی جیسی مردہ وزارت میں جان ڈالنا۔ چاند دیکھنے کا معاملہ جو صدیوں سے پاکستان میں متنازع ہے فواد کے مطابق سائنس کی روشنی میں آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے انہوں نے قمری کیلنڈر اور رویت ایپ جیسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ 
جب سے کورونا وبا نے ہمیں جکڑا ہے تو حکومت کو اپنی پالیسیز  کی وجہ سے خاصی  تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن فواد نے اس موقع کو بھی سمجھداری سے استعمال کیا۔
وینٹی لیٹر بنانا، ماسک اور سینیٹائزرز ایکسپورٹ کرنا، ڈرونز کے ذریعے زرعی سپرے کا منصوبہ اور سمارٹ گیند بنانے کا منصوبہ ان کی وزارت کے چند قابل ذکر اقدامات ہیں۔ فواد اگلے دس سال میں پاکستان کو ٹیکنالوجی سوپر پاور بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی وزارت جس کا ذکر تک شاید کبھی میڈیا پر نہیں ہوا تھا اب اکثر اپنی کامیابیوں کی وجہ سے زیر بحث نظر آتی ہے کیونکہ اپنے کاموں کی پرزور تشہیر کا ہنر بھی فواد کو خوب آتا ہے۔
فواد کے نڈر ہونے کی دوسری وجہ ان کی سیاست سے جڑی ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ وہ سہی معنوں میں political animal ہیں جو ہلکی اور پارلیمانی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ ماضی میں بھی مشرف اور بلاول کے خاصے قریب رہ چکے ہیں۔ چمچہ گیری اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا کم عقل سیاست دانوں کا کام ہے۔ 
ایوانوں کی شان و شوکت اور صدر اور وزیر اعظم کے دب دبے کے سامنے بڑے بڑے لومڑی بن جاتے ہیں لیکن فواد اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں اسی لیے ان کی دلیلوں اور مباحثوں میں منطقی سوچ اور بے تکلفی نظر آتی ہے۔ جس خوبصورتی سے انہوں نے حالیہ انٹرویو میں خان صاحب کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی نااہلیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کا خلاصہ پیش کیا ایسا کرنے کا دل گردہ کم ہی وزراء میں ہوتا ہے۔
جو لوگ خان صاحب کے قریب ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ ایک خود پسند حکمران ہیں اور یہی لوگ ان کو عظیم ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں لیکن سمجھدار حکمران وہ ہوتا ہے جو اپنے قریبی مشیروں میں صرف چمچے ہی نہیں کچھ ایسے نڈر لوگ بھی رکھتا ہے جو وقتًا فوقتًا اس کو آئینہ دکھانے کی ہمت رکھیں۔
ربیعہ شہزاد

Post a Comment

0 Comments