Ticker

12/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

 




ایران، چین تاریخی معاہدہ

— فائل فوٹو

ابھی ایران نے بھارت کو چاہ بہار کے معاہدے سے الگ کیا ہی تھا کہ پندرہ جولائی کو ایران میں پراسرار دھماکوں اور آگ لگنے کی خبریں آنے لگیں۔ تازہ واقعے میں سات کشتیوں میں آگ لگ گئی یہ واقعہ بوشہر کی بندرگاہ پر ہوا جہاں کے شپ یارڈ میں بحری جہاز اور کشتیاں بنائی جاتی ہیں۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران کی طرف سے بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے الگ کرنے سے کچھ روز قبل اور بعد ایران کی کئی حساس اور دفاعی نوعیت کی تنصیبات پر آگ لگنے کے پراسرار واقعات ہوچکے ہیں جن مقامات پر اس طرح کی آگ لگی یا لگائی گئی ہے ان میں میزائل فیکٹری، بجلی گھر، میڈیکل کلینک اور جوہری تنصیبات بھی شامل ہیں اس طرح کے واقعات میں جان بوجھ کر آگ لگائے جانے کے امکانات بہر حال موجود ہوتے ہیں۔
اس سے قبل شمال مشرقی شہر مشہد میں بھی ایک صنعتی علاقے میں گیس کے ذخیروں میں آگ لگ گئی تھی جس سےچھ بڑے ذخیرہ کرنے والے ٹینک نذر آتش ہوگئے تھے جن میں ایک دھماکے سے مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اس سے ایک دو دن پہلے ایران کے جنوب مغربی علاقےمیں واقع ماہ شہر میں بھی ایک پیٹرو کیمیکل کارخانے میں آگ لگ گئی تھی جس سے تیل رسنے لگا تھا۔ 
اسی ہفتے میں تہران کی ایک گھریلو عمارت کے تہہ خانے میں کئی گیس کے سلنڈر پھٹ گئے تھے۔ ایران حکام کے مطابق ممکن ہے اس آگ اور دھماکوں کے پیچھے بیرونی عناصر کا ہاتھ ہو یا پھر ایران کے اندر ایران مخالف لوگ حکومت کے خلاف کام کررہے ہوں۔ 
حال ہی میں ایران اور چین نے ایک اہم معاہدے پردستخط کیے ہیں جن کے اثرات ایران اور چین میں تو حوصلہ افزا ہونے کے امکان ہیں مگر یہ معاہدہ بھارت کے لیے خاص حوصلہ شکن ثابت ہوسکتا ہے۔
اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی اہمیت دی اور کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کے باوجود یہ خبر بڑے اخبارات کی زینت بنی۔ 
اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ کم از کم اگلے ربع صدی یعنی تقریباً 2050ء تک قابل عمل ہوگا اور اس کے اسٹریٹجک اور تجارتی دونوں پہلو پر عمل ہونے سے آنے والے عشروں میں اس خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں کیونکہ اس سے امریکا اور بھارت دونوں کے مفادات متاثر ہوں گے اور چین آگے بڑھ کر اپنی بالادستی قائم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ 
ایران اور چین کے مابین اس معاہدے کے چند دن بعد معلوم ہوا کہ ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریلوے اور گیس منصوبے سے الگ کردیا ہے۔ اس کی وجہ ایران نے بظاہر تو یہ بتائی ہے کہ بھارت اپنے وعدے کے مطابق مطلوبہ رقوم کی فراہمی نہیں کرسکا ہے۔ 
یاد رہے کہ 2016ء میں جب افغانستان، ایران اور بھارت نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے تو اس وقت اعلان کیا گیاتھا کہ چاہ بہار سے زاہدان تک ریل کی پٹڑی بچھائی جائے گی جس میں بڑا مالی حصہ بھارت فراہم کرے گا مگر اب ایران نے خود ہی اس منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایران اور چین کے حالیہ معاہدے کے تحت اس کی رقم چار سو ارب ڈالر کے برابر ہے جس کے مطابق ایران اگلے پچیس برس میں چین کو انتہائی سستی قیمت خام تیل فراہم کرے گا اور اس کے بدلے میں چین ایران میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت امریکا، یورپ، بھارت اور دیگر ممالک کورونا وائرس کی زد میں ہیں اور اس سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں جب کہ ایران اور چین نے بڑی خاموشی سے اتنی اہم پیش رفت کرلی ہے۔ اب امریکا کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتا رہے لیکن عملی طور پرنہ امریکا اور نہ ہی بھارت اس صورتحال میں ایران اور چین کے لیے کسی بڑے مسئلے کا باعث بن سکتے ہیں یقیناً یہ معاہدہ بڑے دوررس نتائج اور اثرات کا حامل ہوگا۔ 
اس معاہدے کی جو تفصیلات ایرانی خبر رساں ادارے ’’تسنیم‘‘ نے جاری کی ہیں ان کے مطابق معاہدے کی شق نمبر چھ کے تحت دونوں ممالک توانائی، بنیادی ڈھانچے یا انفرا اسٹرکچر، صنعت اور تیکنیکی تعاون کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور اس طرح کے تعاون میں اگلے پچیس برس کے دوران بتدریج اضافہ ہوتاجائے گا۔
گوکہ یہ معاہدہ ایرانی اور چینی حکومتوں کے درمیان ہوا ہے لیکن ایسا لگتاہے کہ اس کو آیت اللہ خامنہ ای کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے جو ہر حالت میں امریکا سےمکمل قطع تعلق کے خواہاں ہیں اور ایرانی صدر حسن روحانی کے اس معاہدے سےخوش نہیں تھے جوانہوںنے امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری مکمل طور پرروک دینی تھی جس کے لیے خامنہ ای بالکل تیار نہیں تھے اور لیبیا کا حوالہ دیتے تھے جس کے سابق سربراہ معمر قذافی نے جب ایسا ہی معاہدہ کرکے اپنی جوہری صلاحیت مکمل ختم کردی تھی مگر امریکا اوردیگر مغربی طاقتوں کوپھر بھی سکون نہیں ہوا تھا اور انہوں نے آخرکار قذافی کاخاتمہ کرکے لیبیا کو تباہ کردیا۔ 
ایران اور چین کے اس معاہدے پر ابھی ایران کی پارلیمانی توثیق باقی ہے جس کے بعد اس معاہدے کو عام کردیا جائے گا فی الوقت اس کے صرف چیدہ چیدہ نکات ہی سامنے آسکے ہیں جو کہ اطلاعات کے مطابق جون 2020ء میں تیار کیے گئے تھے۔ایک بات تو اس معاہدے میں بڑی واضح طور پر کہی گئی ہے اور وہ یہ کہ دونوں ممالک تجارت، سیاست، ثقافت اور سیکورٹی کے شعبوں میں یکساں نظریات کی حامل ہیں اور ایک دوسرے کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ 
اتنے واضح اعلان کے بعد اگر ایران اور بھارت صرف تجارت اور سیاست کے معاملے میں ہی یکساں نظریات پر عمل کریں تو معلوم ہوگا کہ دونوں حکومتیں ایک ہی طرح کی سیاسی حرکتیں کرتی ہیں یعنی دونوں حزب مخالف کو کچلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں بھی دونوں یکساں ہیں۔ اگر ایران اپنے ملک میں بہائی اور سنی مذہبی اقلیتوں کو کچلتا ہے تو چین بھی سنک یانگ اور کاشغر سے لے کر ہانگ کانگ تک ایسا ہی کرتاہے تو حکومتیں مطلق العنان ہیں۔ اگر ایران میں تھیوکریسی نے اپنی آمریت قائم کی ہوئی اور حیرت ہے کہ ایک کمیونسٹ اور ایک انتہائی مذہبی حکومت کس طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ اس نئے معاہدے کے مطابق ایران کی تیل و گیس کی صنعت کو چین کی جابن سے دو سو اسی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملنے کی توقع ہے اس کے علاوہ ایران میں چین پیداواری صلاحتیں بڑھانے اور نقل و حمل یا آمدورفت کے بنیادی ڈھانچے یعنی انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھی ایک سو بیس ارب ڈالر لگائے گا۔
اس کے بدلے میں ایران 2050ء تک چین کو اپنا خام تیل اور گیس انتہائی سستے داموں فروخت کرے گا اس طرح کی توانائی کو چین کو شدید ضرورت ہے اور چین اور ایران کے درمیان افغانستان اور پاکستان دونوں ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے ہیں اور معلوم ایسا ہوتاہے کہ جیسے ہی امریکا افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا کرے گا چین اس خلا کو پر کرنے کے لیے آ موجود ہوگا۔ 
یہی وجہ ہے کہ اب طالبان اپنی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور شاید پاکستان اور چین دونوں کا خیال یہ ہے کہ امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان میں دوبارہ طالبان کو مسلط کیا جائے جو پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر اس خطے میں نہ صرف امریکی بل کہ بھارتی مفادات کی بھی بیخ کنی کرسکیں مگر یہ ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ طالبان بہرحال دہشت گرد ہیں اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں کافی نقصان کرچکے ہیں۔
اس نئے معاہدے کاایک اور پہلو یہ ہے کہ چین ایران میں پانچ جی ٹیکنالوجی یعنی موبائل کی پانچویں نسل کی آب یاری کرے گا اور اس کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں بھرپور مددکرےگا۔ یاد رہے کہ پانچ جی ٹیکنالوجی موبائل کی جدید ترین نسل ہوگی جس میں پیغام رسانی کے لیے سیکڑوں گھنٹوں کی وڈیو ریکارڈنگ بھی صرف چند سیکنڈ یا لمحوں کے اندرآپ کے موبائل فون یا کمپیوٹر میں منتقل ہوجائیں گی۔اس ٹیکنالوجی کا سرخیل اس وقت چین ہے اور خاص طور پر اس کی ہواوے کمپنی نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اسی لیے امریکانے ہواوے پر پابندیاں عائد اور برطانیہ کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی چین کی اس کمپنی سے معاہدے ختم کرلے۔
امریکا کا بظاہر تو یہ کہنا ہے کہ اس طرح چین کو خود امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے خفیہ رازبھی منتقل ہوجائیں گے لیکن اس کے باوجود چین کو اس شعبے میں اب روکا نہیں جاسکتا۔ ایران اور چین کے اسی معاہدے کے تحت چین بڑے پیمانے پر بینکاری اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں بھی اپنی شرکت بڑھانے کا وعدہ کیاہے جس سے ایران کو امریکی بینکوں کی پابندیوں سے بھی نجات ملنے کاامکان ہے۔
ایران کی کئی بندرگاہیں اور دیگر درجنوں مواصلات کے منصوبے جن میں ریلوے کے علاوہ سڑکوں کے جال بھی شامل ہیں ایران میں چین بچھائے گا اور یہ سب وہ چیزیں ہیں جو کرنے کے بھارت صرف خواب ہی دکھا سکتا تھا کیونکہ بھارت کے پاس نہ تو اتنے مالی وسائل ہیں اور نہ اتنی تیکنیکی مہارت کہ ایسے بڑے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرسکے۔اور پھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے صدر ٹرمپ سے بڑھتے ہوئے تعلقات نے بھی ایران کو ناخوش کیا ہوگا اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ بھی مودی کی دوستی ایران کو ناگوار گزری ہوگی اس طرح تمام باتوں نے مل کرایران کو بھارت سے دور ہونے میں مدد دی ہے اور ایران کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایک بڑی طاقت کا مقابلہ ہے جو وہ چین کی مدد سے بخوبی کرسکتا ہے۔
چین کی چھتر چایہ میں ایران آگے بڑھ سکتا ہے اور امریکا سے تو وہ پہلے ہی چالیس سال سے نبردآزما ہے اور اسے ’’شیطان بزرگ‘‘ یعنی بڑے شیطان کے لقب سے یاد کرتا ہے۔ 
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ معاہدے کے تحت ایران اور چین مشترکہ فوجی مشقیں بھی کریں گے اور جنگی تحقیق میں بھی حصہ لیں گے ساتھ ہی مل کر اسلحہ بھی بنائیں گے۔اس طرح ایران اور چین ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلی جنس یا جاسوسی کے معاملات میں بھی تعاون کریں گے اس طرح خلیج فارس میں چین کو براہ راست دسترس حاصل ہوجائے گی اور اب جس طرح خلیج میں امریکی جہاز دندناتے پھرتے ہیں ان کے مقابلے میں چین کے جہاز ایرانی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہو کر اپنی موجودگی سے طاقت کا توازن بدل دیں گے۔
اب ایران مکمل طور پر چین کا اتحادی بنتا جارہا ہے جس سے نہ صرف اسرائیل اور امریکا کے مفادات پر براہ راست زک پہنچےگی بلکہ بھارت اور سعودی بھی جزبز ہوتے رہے ہیں گے لیکن کوئی بھی اس اتحاد کو کم ازکم فی الوقت للکارنے کی حالت میں نہیں ہے۔ 
ایران کو چین کی طرف دھکیلنے میں امریکا اور اسرائیل دونوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے امریکا کے سابق صدر اوباما نے عقل مندی سے کام  لیتے ہوئے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی جس کو اسرائیلی حلقوں میں شدید ناپسند کیا گیا اور صدر ٹرمپ کو صدر بنانے کے لیے اسرائیلی حلقوں نے ایڑی چوٹی کا زور تو لگادیا مگر بدک گیا ہے اور اس کے لیے چین کے سوا اور کوئی سہارا ہے بھی نہیں اس لیے یہ ایک منطق سلسلہ ہےجس کانتیجہ یہ معاہدہ ہے۔
اب اس معاہدے سےایران پر امریکی پابندیوں کااثر بہت کم ہوجائے گا۔ ایران میں امریکی پابندیوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری بڑی حد تک رک گئی تھی اور اب چین کی سرمایہ کاری ایرانی معیشت میں کچھ جان ڈال سکتی ہے۔ یاد رہےکہ چین اس وقت دنیا بھر میں خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کو تیل کی سستی درآمد کے لیے ایران سے بہتر کون مل سکتا ہے جو کہ جغرافیاتی طور پر قریب بھی ہے اور سستے داموں تیل و گیس فراہم بھی کرسکتا ہے۔
بلاشبہ یہ معاہدہ امریکا اور اسرائیل کے علاوہ بھارت کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے لیکن بھارت کی ناراضی سے ایران کو کوئی فرق اس لیے نہیں پڑنے والاکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سےبھارت نے ایران سے تیل کی درآمد تقریباً بند کردی تھی گو کہ چند سال قبل تک ایران بھارت کو بڑی مقدار میں تیل فروخت کررہا تھا۔
اب چاہ بہار کی بندرگاہ جسے بھارت گوادر کے مقابلے میں پیش کرنا چاہ رہاتھا وہاں چین آدھمکے گا اور بھارتی سرمایہ کاری میں مشکلات پیدا ہوں گی اب بھارت اگر اسرائیل، امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا تو افغانستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایران، پاکستان، چین اور روس کےساتھ کھڑا ہوتاہے یا ان کے مخالف۔
لیکن ایک بات اور جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ روس،چین اور بھارت سے لے کرایران اور پاکستان تک تمام ممالک بین الاقوامی طور پر تو اپنے اتحادی بدلتےر ہتے ہیں لیکن یہ تمام ممالک خود اپنے عوام پر اظہار رائے کی پابندیاں لگانے سے نہیں چوکتے۔ خاص طور پر ایران اور چین دونوں اپنے عوام کو بری طرح سے جکڑے ہو ئے ہیں ابھی حال ہی میں ایران نے ایک سوشل میڈیا مہم کے بعد حکومت مخالف مظاہرین کوسنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ یہ لوگ گزشتہ نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہروں میں شامل تھے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ حتی کہ ایران کے سپریم کورٹ نے بھی ان افرادکی سزائے موت کو باقی رکھا تھا۔ان سزائوں کے خلاف شدید عوامی ردعمل ایران بھر میں سامنے آیا جس کےنتیجے میں پچھتر لاکھ سے زیادہ ٹوئٹس کی گئی تھیں۔اب اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا گیا ہے ان مظاہروں میں مبینہ طور پر سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے جن تین افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی ان کے نام ہیں امیر حسین، محمد رجبی اور سعید تمجیدی۔ پھر ایران کورونا وائرس پر بھی قابو پانے میں بری طرح ناکام رہا ہے جس سے ایران میں تیرہ ہزار سےزائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
یہی حال بھارت اور چین کا ہے اگر بھارت کشمیر میں عوام کو کچلتا ہے تو چین سنک یانگ اور کاشغر میں ایغور مسلمانوں پر جبر کرتا ہے ۔ روایتی طور پر بھارت روس کے قریب رہا ہے مگر اب پچھلے چند برس سے بھارت نے امریکا کے قریب ہونا شروع کی مگر بھارت کو پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے جس نے تقریباً ستر سال امریکا کی خدمت کی مگر جب بھی ضرورت پڑی امریکا نے پاکستان کو ٹھینگا دکھا دیا۔
بھارت پہلے تمام ممالک سے اپنے مفادات کے مطابق اچھے تعلقات رکھتا تھا مگر بی جے پی کی حکومت میں پچھلے چھ سال کے دوران میں بھارت کی خارجہ پالیسی خاصی کم زور ہوئی ہے اور بھارت امریکا کا دم بھرنے کے چکر میں خود اپنے خطے کے ممالک سے دور ہورہاہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح پاکستان نے اپنے ارد گرد کے ممالک سے تعلقات بگاڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا اسی طرح بھارت بھی نہیں کرسکے گا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چین، بھارت، روس، پاکستان اور ایران مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ خود اپنے ملکوںمیں لوگوں کو کچلنے کے بجائے جمہوریت کو مستحکم کریں۔ انسانی حقوق کی پاس داری کریں اور مل جل کر اس خطے کی انسانی ترقی کے لیے کام کریں نہ کہ اپنے وسائل اسلحہ و گولہ بارود اور ایٹم بموں اور ٹینک توپوں پر خرچ کریں یہی اس خطے کے لیے بہترین حل ہے۔اس خطے کے تمام ممالک کو سمجھنا چاہئے کہ چین اب دنیاکی طاقت ور ترین معیشت ہے اور اگر بھارت چین کے ساتھ اور پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تنازعے حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ اس خطے کے عوام کے لیے بڑی خوش خبری ہوگی۔
اس کے لیے سب سے پہلے چین کو بھارت کی طرف، بھارت کو پاکستان کی طرف اور پاکستان کو افغانستان کی طرف اپنے رویئے درست کرنے ہوں گے اور خود اپنے ممالک کے عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا۔چین اور بھارت کو استبدادی قوتوں کے بجائے جمہوری قوتوں کے طور پر کام کرنا چاہئے اور اپنے وقتی مفادات پر اس خطے کے مستقبل کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے۔تاریخی طور پر چین بھارت کو دباتا رہا ہے بھارت پاکستان کو اور پاکستان افغانستان کو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر بڑے کو اپنے سے چھوٹے پردادا گیری کو ختم کیا جائے۔ بھارت چین سے برابری کی کوشش ختم کرے اور پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی باتیں ختم کرے۔
ہر ملک کو اپنی حیثیت کا صحیح تعین کرنے کی ضرورت ہے اور برابری کے چکر میں پڑنے کے بجائے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہےجس کے لیے جمہوری روایات، انسانی حقوق اور امن پسندی لازمی امور ہیں جن پر چین اور بھارت کو پہلی پیشرفت کرنی چاہئے کیونکہ جب تک یہ دو بڑے بدمعاشی کرتے رہیں گے امن نہیں ہوگا۔
یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہےایران میں روس کے بعد سب سے بڑا قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے۔ خام تیل میں ایران سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس سلسلےمیں سعودی عرب کو بھی بالآخریہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بدستور امریکا کے بل بوتے پر کھڑا رہے گا یا اپنی ایران دشمنی میں چھ کمی لائے گا۔
ایران ایک کمیونسٹ ملک چین اور ایک ہندو اکثریتی ملک بھارت سے اچھے تعلقات رکھ سکتاہے تو سعودی عرب سے کیوں نہیں۔آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ اس نئے ایران چین معاہدے کاخیرمقدم کیا جانا چاہئے اور افغانستان، بھارت، پاکستان اور چین کو اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر کابل سے کلکتہ، کاشغر سےکنیاکماری اور تہران سےتامل ناڈو تک ایک اچھے تعلقات رکھنے والا خطہ تشکیل دینا چاہئے۔ مگر کاش، اے کاش۔ 
یہ کالم روزنامہ جنگ میں مورخہ 22 جولائی 2020 کو شائع ہوا۔ 

Post a Comment

0 Comments