Ticker

12/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

 




کچرا اور چھان بورا

جہاں ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں چار بھائی اپنے سگے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں، بیٹا ماں کے قدموں تلے جنت تلاش کرنے کی بجائے اسے گالیاں دیتے ہوئے تھپڑ رسید کر رہا ہو، جہاں معصوم بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہوں، قبرستان قبضہ گروپوں سے محفوظ نہ رہیں۔
مائیں بھوک سے بلبلاتے بچے مارنے پر مجبور ہو جائیں، جینوئن دوا اور خالص غذا خواب بن جائے، غیرت کے نام پر جہالت کا بازار گرم ہو، پورنو سائٹس میں پہلی پوزیشن پہچان بن چکی ہو، مجسمے نہ توڑنے پر نکاح ٹوٹنے کا خطرہ ہو، جہاں رشوت سکہ رائج الوقت ہو، امتحانی مراکز سے لے کر تھانے تک نیلام ہوتے ہوں، اسپتالوں کے ویسٹ سے مصنوعات تیار ہوں۔
پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلیں، گھوسٹ سکولوں سے لے کر گھوسٹ ملازمین تک ’’وے آف لائف‘‘ بن چکا ہو، ’’ٹھنڈی مرغیاں‘‘ اور جعلی انڈے عام ہو جائیں، شہد کو بھی ’’اسلامی‘‘ قرار دے کر مارکیٹ کیا جائے، طبیب لیبارٹریوں کے ساتھ مک مکا کر لیں، اساتذہ بچیوں کو فحش مواد بھیجیں، سیاست طعنہ بلکہ گالی بن چکی ہو، معاشرہ میں اکلوتی ویلیو ’’نیو سنس ویلیو‘‘ قرار پائے، تنخواہیں مضحکہ خیز اور سو فیصد غیرمنطقی ہوں، قانون شکنی پر فخر کیا جاتا ہو، پابندیٔ اوقات پر ہزار لعنت بھیجی جا چکی ہو۔
صفائی کے لئے کم از کم کورونا درکار ہو، چور اور چوکیدار سمدھی بن جائیں، جہاں ’’کنیزوں‘‘ کی منڈیاں لگیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، جہاں اعلیٰ ترین سطح پر کرپٹ ترین ہونے کا نوحہ پڑھا جائے... وہاں کون سا اور کیسا سوشل میڈیا؟ ہر طرف ’’مادر پدر آزاد‘‘ کھاتے کھلے ہوئے ہیں کہ آزادی کی صرف یہی تعریف ان کی سمجھ میں آئی جنہیں نہ تعلیم نصیب ہوئی نہ تربیت۔
بزرگ کہا کرتے تھے کہ تمول اور تعلیم تیسری نسل میں جا کر اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے یعنی لگا تار تین نسلوں کو ڈھنگ کی تعلیم اور مناسب تربیت سے آراستہ کرو گے تو ’’اجتماعی چہرہ‘‘ نکھرنا، سنورنا شروع ہوگا۔ لیکن قیامِ پاکستان کے چند ابتدائی برسوں کے بعد ہی ہم نے ریورس گیئر لگایا اور باجے بجاتے، ملی نغمے گاتے اک ایسے گٹر تک پہنچ گئے جسے دیکھ کر خوف آتا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ ’’صفائی‘‘ شروع کہاں سے کریں۔مجھے تو چھوڑیں کہ خبطی بڈھا ہوں، اپنے کسی 60،65 سالہ سیانے بز رگ سے پوچھیں کہ آج سے صرف 40،45 سال پہلے تک سرکاری سکول کیسے ہوتے تھے؟
اور ان سکولوں نے کیسے کیسے عالی شان لوگوں کو جنم دیا اور وہ کچھ کیا جو آج کے مہنگے پرائیویٹ سکول بھی نہیں کر پا رہے۔
عرصہ پہلے یہ مہم شروع کی کہ نام نہاد لیڈرو! اس معاشرے کا اصل المیہ برباد اقتصادیات نہیں، قدم قدم پر اخلاقیات کے لاوارث جنازے ہیں جنہیں گورکن بھی نصیب نہیں لیکن اصلی بات ان کے پلے نہیں پڑ رہی کہ اقتصادیات کی ابتری کے پیچھے بھی اصل ہاتھ بدبو دار، بدصورت اخلاقیات کا ہی ہوتا ہے۔
اداروں کی تباہی سے لے کر ملکی وسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے پیچھے بھی جرائم پیشہ قیادتوں کی ابلیسی اخلاقیات نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا میرٹ کی پامالی سے بڑھ کر بھی کوئی’’بد اخلاقی‘‘ ہو سکتی ہے؟ لیکن یہاں تو اخلاقیات کی DEFINATIONSہی نرالی ہیں۔
سارا زور فقط ظواہر اور مخصوص حلیوں تک محدود رہا اور اندر سے بری طرح کھوکھلے ہوتے چلے گئے اور کمال زوال یہ کہ آج بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ کل کسی اور کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے تھے، آج کسی اور کے ہاتھ چوم رہے ہیں۔
نہ کوئی ساکھ نہ کردار، نہ ڈسپلن نہ ٹیم ورک، نہ احساس ذمہ داری، نہ سیلف کنٹرول، نہ کوئی سمت، نہ عدل نہ احسان، نہ صلۂ رحمی، نہ کوئی ہدف، نہ پابندیٔ اوقات، قیادت کے نام پر شخصیت پرستی، نہ صبر نہ ضبط، نہ استقامت نہ استقلال، نہ محنت نہ جاں سوزی، نہ دوسروں کے حقوق یاد نہ اپنے فرائض کی پروا، نہ گہرائی نہ گیرائی، نہ کوئی وژن۔
پبلک ریلیشننگ کے مارے ہوئے ہم جو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے شہکار ہیں حالانکہ ’’پدرم‘‘ دراصل بہت دور کے رشتے دار ہیں۔ جن پر ’’فخر‘‘ فرماتے ہیں ان کا اپنے ارد گرد، دائیں بائیں ، آگے پیچھے سے کوئی تعلق ہے؟گزرا کل بیت گیا، واپس نہیں آئے گا اسے بھول جائو۔آنے والے کل کی خبر نہیں۔’’آج‘‘ ہی اصل ہے۔
"I HAVE NO YESTERDAYS, TIME TOOK THEM ALL AWAY, TOMORROW MAY NOT BEBUT I STILL HAVE TODAY"
موجود لمحوں کی فکر کرو کیونکہ آنے والے گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے اور سال خود ہی خود کو سنبھال لیں گے۔ ہم جیسے لوگ یقیناً نہیں جانتے کہ اس پاتال میں کرنا کیا ہے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جو کچھ کرتے رہے، جو کچھ کئے جا رہے ہیں، وہ بہت ہی مہلک، خطرناک اور تباہ کن ہے اور اسی کو تبدیل کرنا ہی ’’تبدیلی‘‘ کہلائے گا۔باقی سب کچرا اور چھان بورا ہے
حسن نثار

Post a Comment

0 Comments