سارے اخبار کھنگال چک، وہی روتی، پیٹتی، ماتم کرتی منہ بسورتی منحوس خبریں اور اصل دکھ یہ ہے کہ ساری خبریں ہی سچی ہیں۔ ہمارے بھی کیا نصیب ہیں کہ ہر بری خبر سچ ہوتی ہے اور بیشتر اچھی خبریں جھوٹ، دھوکے، فریب اور سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتیں۔
سپریم کورٹ نے ہماری تاریخ کی سمری چند لفظوں میں کچھ یوں سمیٹ دی۔’’عوام 72سال سے آئینی حقوق سے محروم۔ مجرمانہ ریکارڈ والے قوم پر مسلط رہے‘‘اس پر یہ فرمان یاد آیا ’’جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔ غضب کا مصرع ہے کہ ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘۔ ہماری خطائیں تو صدیوں پر محیط ہیں، سزائوں کی طوالت و اذیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ گزشتہ دنوں اوپر نیچے چند ایسی کتابیں زیر مطالعہ رہیں جن کا تعلق مسلمانوں، بالخصوص عربوں کے عروج و زوال کے ساتھ تھا۔
سچ یہ کہ غیر ملکی مورخین اور محققین نے کہیں کوئی ڈنڈی نہیں ماری تھی لیکن المیہ یہ کہ صدیوں سے ہمارے ’’قائدین‘‘ اپنے مرض بلکہ ’’امراض‘‘ ہی ماننے کو تیار نہیں تو علاج کی نوبت کیسے آئے؟‘‘ پھرتے ہیں لا علاج کوئی پوچھتا نہیں‘‘پاکستان کو پیار سے ’’اسلام کا قلعہ‘‘ بھی کہتے ہیں جس کے سب سے بڑے صوبہ کے سب سے بڑے اور تاریخی شہر لاہور بارے اک اور اخبار یہ سرخی جماتا ہے۔’’گھنٹوں بارش۔
آدھا لاہور ڈوب گیا، بجلی کا نظام درہم برہم، ٹریفک جام‘‘یہ ہے وہ شہر جس کی ’’ترقی‘‘ کے افسانے ہی ختم نہیں ہوتے حالانکہ ہر کام آرائشی، زیبائشی، مصنوعی اور سطحی جسے دیکھ کر برادر بزرگ ظفر اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے۔کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیاتنکلی بیرون شہر تو بارش نے آ لیاچند چھینٹوں کی مار، میک اپ دھلتے اور اترتے ہی خوبصورتی رعنائی غائب ہو جاتی ہے اور ’’ملکۂ حسن‘‘ کی جگہ چڑیل نظر آنے لگتی ہے۔
کوئی اور نہیں شاہ بھی، محمود بھی اور قریشی بھی یعنی ’’تینوں‘‘ مل کر کہہ رہے ہیں کہ ’’دہری شہریت والے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتے‘‘ لیکن یہ اور بات کہ پارلیمنٹ پر بھاری ضرور پڑ سکتے ہیں۔ میں نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں لکھا لیکن بدقسمتی سے یہ آج بھی اتنا ہی سچا اور تر و تازہ ہے جتنا عشروں پہلے تھا۔شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافیالٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گاہم جیسے مدتوں سے سیدھا دیکھنے کے شوق میں الٹا لٹک رہے ہیں لیکن منظر ہے کہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
اک اور خبر کی سرخی۔’’گوجرانوالہ کے سوا پنجاب کے تمام اضلاع میں گندگی کے ڈھیر۔ عید پر بدترین صورت حال کا خدشہ‘‘خبر کی تھوڑی سی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پنجاب کے 36اضلاع میں گندگی کے ڈھیر صفائی کے منتظر ہیں۔ سالانہ اربوں روپے صفائی کے نام پر خرچ ہوتے ہیں ’’لیکن‘‘.....ہماری ہر کہانی ہی ’’لیکن‘‘ کے بعد شروع ہوتی ہے جس کا اختتام بدبو کے بھبھکے چھوڑتی ہوئی ’’گڈ گورننس‘‘ پر ہوتا ہے۔حال اپوزیشن کا بھی مندا ہی ہے۔
حکومت تو اناڑیوں اور ناتجربہ کاروں کی ہے لیکن اپوزیشن تو ’’ماہرین فن‘‘ اور بے حد ’’تجربہ کاروں‘‘ پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی حکومت مخالف صف بندیوں اور ’’اے پی سی‘‘ کے علاوہ اور کچھ سوچنے کے قابل نہیں کہ شاید یہی کچھ ہمارے اجتماعی DNAکا طرئہ امتیاز ہے کہ عوام سے لے کر خواص تک یہاں کوئی کسی کو ’’بھولنے اور معاف کرنے‘‘ پر تیار نہیں۔ FORGIVE اور FORGET کرنے کا رویہ کسی بھی مہذب معاشرہ کی اولین پہچان ہوتا ہے۔ میں نے کالم کے آغاز میں مسلمانوں بالخصوص عربوں کے عروج و زوال بارے کتابوں کا حوالہ دیا تو عرض کرتا چلوں کہ جیسے جیسے ان میں ’’بھولنے اور معاف کر دینے‘‘ کی صفت غائب ہوتی گئی، ان کا عروج پگھلتا چلا گیا۔
بندہ بندے کا، قبیلہ قبیلے کا ویری ہو گیا، ہر کسی کا ہاتھ دوسرے کی جیب اور اقتدار میں گھستا چلا گیا۔ نتیجہ اندلس، بغداد، دمشق جیسی علامتیں بکھرتی اور اجڑتی چلی گئیں۔یہ "FORGIVENESS"ہوتی کیا ہے؟عوام اور اقوام کی زندگی میں اس کا مقام کیا ہے؟اگر خالق و مالک و رازق و قادر مطلق معاف کر دینے والا ہے تو اس کی فانی مخلوق اگر غیظ و غضب، غصہ، انتقام پر تلی ہو گی تو اس کا انجام سمجھنے کے لئے فہم و فراست نہیں، کامن سینس ہی بہت کافی ہے۔
اک محاورا سا ہے۔"HE WHO CAN NOT FORGIVE BREAKS THE BRIDGE OVER WHICH HE HIMSELF MUST PASS"لیکن پاکستان کی پوری تاریخ دیکھ لیں، اسی شرمناک کھیل کو دوہرائے جانے کی کہانی ہے ’’مجھے موقع ملے میں نے تجھے نہیں چھوڑنا اور تجھے موقع ملے تو نے مجھے نہیں چھوڑنا‘‘ پہلے اس کھیل میں دو پارٹنرز تھے۔ پھر تبدیلی اور ترقی یوں ہوئی کہ اب یہ کھیل تین پارٹنرز کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔
جس سے اکھاڑے کی رونق دو چند سے بڑھ کر سہہ چند ہو گئی ہے۔ ایسی تیسی رومن اکھاڑوں کی جن میں غلام پوری وحشت سے بربریت کے مظاہرے کر کے عوام کا دل بہلایا کرتے تھے، اصل ایشوز سے ان احمقوں کی توجہ ہٹایا کرتے تھے اور ایسے قول بھول جایا کرتے تھے۔
"NEVER DOES THE HUMAN SOUL APPEAR SO STRONG AND NOBEL AS WHEN IT FOREGOES REVENGE AND DARES TO FORGIVE AN INJURY.(E.H. CHAPIN )
0 Comments