1999کا ذکر ہے۔ پشاور میں میری صحافت کا دوسرا سال تھا۔ میں ان چند صحافیوں میں شامل تھا جو اس وقت طالبان کی حکومت کے ناقد تھے۔ طالبان کی حکومت کے پشاور کے قونصل خانے سے ویزا لے کر افغانستان گیا۔ میرے دوست اعظم خان بھی میرے ساتھ تھے۔ واپسی پر طالبان نے مجھے گرفتار کرکے عقوبت خانے میں بند کردیا۔ صحافتی اور ذاتی دوستوں کی کوششوں سے بالآخر ہمیں رہائی ملی۔
ہماری گرفتاری اور رہائی کی خبر بی بی سی جیسے عالمی اداروں پر نشر ہوئی۔ تب مجھ سے ایک عالمی این جی او نے رابطہ کیا اور امریکہ یا ناروے میں سیاسی پناہ کی آفر دے دی۔ میں نے جواب دیا کہ میں اپنی سرزمین پر ہی رہنا اور مرنا چاہتا ہوں۔ امریکہ اور برطانیہ سے لے کر پوری دنیا میں گھومنے کا موقع ملا لیکن کبھی کسی غیرملک اور بالخصوص مغربی ملک کی شہریت کا خیال تک دل میں نہیں لایا۔
روزگار اور عزت کے حوالوں سے اللہ کا بےپناہ کرم ایک طرف لیکن گزشتہ دس پندرہ سال بڑے عذاب میں بھی گزرے۔ دہشت گردی کا دور آیا، ریاستی اداروں کے جبر کا بھی سامنا رہا لیکن پھر بھی کبھی ملک چھوڑنے کا نہیں سوچا۔
تاہم یہ صرف میرا معاملہ نہیں۔ جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹیو میرشکیل الرحمٰن اور ان کے بیٹے میر ابراہیم رحمٰن کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ غلامی اور تابعداری نہ کرنے کے جرم میں انہیں غدار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ آج بھی پاکستانی پاسپورٹ جیب میں لئے پھرتے ہیں۔ سچ بولنے کی پاداش میں انہیں ملک سے باہر رہنے پر بھی مجبور کردیا گیا اور نیب کے طلب کرنے پر میر شکیل خود دبئی سے لاہور آئے لیکن آج بھی پاکستانی سٹیزن ہیں حالانکہ چاہیں تو امریکہ یا برطانیہ کی شہریت بڑی آسانی سے لے سکتے ہیں۔
یہ صرف ان کا ہی معاملہ نہیں، سید طلعت حسین کے لئے بھی کسی بھی ملک کی شہریت لینا چنداں مشکل نہیں لیکن ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اسی ملک میں رہنا اور مرنا ہے۔ حامد میر صاحب نے گولیاں کھائیں اور خطرات سے کھیلے، ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اس ملک میں رہنا اور مرنا ہے۔
نصرت جاوید صاحب ہوں کہ سہیل وڑائچ، عمر چیمہ ہوں کہ احمد نورانی، مطیع اللہ جان ہوں کہ افتخار احمد، کم و بیش سب کی یہی حالت ہے، ہم سب مغضوب بھی قرار پاتے ہیں اور غدار کے القابات سے بھی نوازا جاتا ہے لیکن دوسری طرف وہ میڈیا مالکان یا پھر وہ اینکرز جنہوں نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف اٹھا کر گرین کارڈ جیب میں رکھے ہیں، وہ منظورِ نظر بھی ہیں اور محبِ وطن بن کر حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹ رہے ہیں۔
اب سیاسی جماعتوں کی طرف آجائیے۔ پی ٹی آئی نے اسلامی ممالک کے اقاموں یا پھر بیرون ملک جائیدادوں پر سیاسی مخالفین کا جینا حرام کردیا تھا حالانکہ سب باخبر لوگ جانتے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف کو اصل سزا امریکہ سے رخ موڑ کر چین اور روس کی طرف پھیرنے اور سی پیک جیسے منصوبے کے آغاز کی ملی ہے۔ اسی طرح نواز شریف کا سارا ریکارڈ ان ملکوں نے فراہم کیا جن کے ان کے یا پھر ان کی جماعت کے رہنمائوں کے پاس اقامے تھے۔ تاہم پی ٹی آئی کی حکومت میں ساری کلیدی اور حساس وزارتوں پر امریکہ اور برطانیہ کے شہری بیٹھے ہیں۔
سوائے ایک دو کے باقی بیرون ملک جائیدادیں بھی رکھتے ہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ وہ محب وطن ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ والے سیکورٹی رسک قرار دیے جارہے ہیں۔ جان بوجھ کر پی ٹی آئی کی حکومت نے سی پیک کو پشاور کا بی آر ٹی بنا دیا اور چینی سر پیٹنے لگے۔ آپ ہی بتائیے کہ جس وزیراعظم کے دائیں طرف ڈپٹی وزیراعظم کی حیثیت میں برطانوی شہری زلفی بخاری بیٹھے ہوں، بائیں طرف امریکی شہری ندیم بابر بیٹھے ہوں، مالی معاملات آئی ایم ایف کے ملازم حفیظ شیخ کے ہاتھ میں ہوں۔
آئی ٹی کا شعبہ کینیڈا اور سنگاپور کی شہری تانیہ ایدروس کے ہاتھ میں ہو، ترجمانی کے فرائض امریکی گرین کارڈ ہولڈر شہباز گل سرانجام دے رہے ہوں تو اس حکومت پر چینی اعتماد کر سکتے ہیں اور کیا وہ ان کے ساتھ اسٹرٹیجک معاملات شیئر کرنے کا رسک لیں گے۔
غیرملکی شہریت گناہ نہیں۔ وہ لوگ جو مزدوری یا ایجوکیشن کے لئے بیرون ملک ہیں، ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ لوگ پاکستان کے محسن ہیں بلکہ شاید ہم سے زیادہ پاکستان کے لئے درد رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امیر کبیر لوگ بیرون ملک شہریت کیوں لیتے ہیں حالانکہ یہ جب جانا چاہیں ان کے لئے ویزے کا حصول کوئی مسئلہ نہیں۔ دراصل یہ لوگ یہ کام اپنی حرام کی دولت اور ناجائز کرتوتوں کی پروٹیکشن کے لئے کرتے ہیں۔
پھر بھی اگر انہوں نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف اٹھا لیا ہے تو آرام سے ادھر بیٹھ جائیں، ہم پر حکمرانی کرنے اور ہمیں بھاشن دینے نہ آئیں تو ہم بھی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آج پارلیمنٹ کا ایک عام ممبر اہم ہے یا غیرملکی شہریت والے مشیر؟ پارلیمنٹ کے ممبر کے لئے تو ہم نے شرط رکھی ہے کہ وہ غیرملکی شہریت نہیں رکھ سکتا لیکن جو شخص ٹرمپ سے لے کر سعودی فرماںرواں تک اور ایرانی صدر سے لے کر قطری شہزادوں تک کی میٹنگز میں وزیراعظم کے ساتھ بیٹھتا اور معاملات طے کرتا ہے، ان کی باہر کی شہریت پر پاکستان کے محافظوں کو کوئی اعتراض نہیں۔
آخر یہ ملک ہے یا شہر ناپرسان۔ تبدیلی کیا یہ تھی، نئے پاکستان میں اکثر کلیدی عہدے غیرملکی شہریوں کے سپرد ہیں اور تماشہ یہ ہے کہ یہ لوگ اور ان کے سرپرست سینے تان کر ہمیں حب الوطنی کے درس دیتے رہتے ہیں۔ آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ ولی خان، جی ایم سید، بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور عبدالصمد اچکزئی نے کسی غیرملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور نہ وہاں جائیدادیں بنائی تھیں لیکن وہ غدار قرار پائے لیکن آج وہ لوگ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں پاکستان کے حکمران ہیں، جو حریف ملکوں کے مفادات کے تحفظ کا حلف اُٹھا چکے ہیں۔
منظور پشتین آج تک پاکستان سے باہر ہی نہیں گیا۔ کبھی کابل بھی نہیں گیا بلکہ شاید انہوں نے ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں بنایا لیکن وہ ”غدار“ جب کہ امریکی گرین کارڈ ہولڈر شہباز گل محب وطن ہیں۔ آخر یہ نیا پاکستان ہے یا پھر شہر ناپرسان؟
0 Comments